عدل سلطانی
سلطان نور الدین زنگی اپنے خاندان کا دوسرا حکمران تھا اسکے زمانے میں دو یہودیوں نے رسول اکرمﷺ کے روضہ مبارک کو نقصان پہنچانے کی ناپاک جسارت کی تھی(نعوذ باللہ) جنہیں سلطان نور الدین زنگی نے موت کے گھاٹ اُتار دیا تھا.کہتے ہیں کہ ایک دن سلطان نور الدین زنگی چوگان کھیل رہا تھا کہ اس وقت ایک سپاہی اسکے پاس آیا اور کہنے لگا کہ حضور محترم قاضی صاحب نے آپکو ایک مقدمے کے سلسلے میں اسی وقت عدالت میں طلب کیا ہے سلطان یہ سن کر کھیل چھوڑ کر فوراً اس سپاہی کے ساتھ قاضی صاحب کی عدالت میں جا پہنچا تو قاضی صاحب نے ایک شخص کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ اس شخص نے آپ کے خلاف ایک مقدمہ دائر کیا ہے اس کا کہنا ہے کہ اسکی زمین پر آپ نے ناجائز قبضہ کرلیا ہے آپ کا اس سلسلے میں کیا جواب ہے؟سلطان نے نہایت ادب و احترام سے کہا کہ اس شخص کا دعویٰ درست نہیں ہے وہ زمین میری اپنی ہے اور میرے پاس اسکے ثبوت بھی ہیں قاضی صاحب نے کہا کہ آپ وہ تحریری ثبوت اگلی تاریخ کو پیش کردیں۔
سلطان نور الدین زنگی نے مقررہ تاریخ کو کچھ کاغذات عدالت میں پیش کردئیے ان کاغذات کی بنیاد پر فیصلہ ہوا کہ زمین سلطان کی ملکیت ہے سلطان نے فیصلہ سنا اور قاضی صاحب کے سامنے ہی کہا کہ اب زمین اپنی طرف سے اس شخص کو دیتا ہوں جس نے مجھ پر مقدمہ دائر کیا ہے کسی نے کہا کہ حضور محترم جب آپ نے یہ زمین اس شخص کو دینی تھی تو مقدمہ لڑنے کی کیا ضرورت تھی وہ پہلے ہی اس شخص کو دے دی ہوتی سلطان نے جواب دیا کہ اگر میں عدالت کے فیصلے سے پہلے ہی زمین اس شخص کو دے دیتا تو لوگ کہتے کہ میں نے واقعی اس زمین پر ناجائز قبضہ کررکھا تھا اور عدالت کے ڈر سے میں نے قبضہ چھوڑدیا ہے اب جبکہ عدالت نے میرے حق میں فیصلہ سنادیا ہے اور سب لوگوں کو معلوم ہوگیا ہے کہ یہ زمین میری ہے تو میں نے اپنی طرف سے زمین اس شخص کو دے دی تاکہ اسکے اوپر کوئی بُرا اثر نہ پڑے قاضی صاحب اور عدالت میں جتنے بھی لوگ تھے سلطان کے عدل دیکھ کر حیران ہوگئے،
واہ!کیسے حکمران تھے کہ وہ لوگ انصاف اور عدل کو اپنا فرض سمجھتے تھے مگر آج کے زمانے میں پاکستان کے طاقتور لوگوں پر جب ایسا وقت آتا ہے تو وہ قانون کی پیروی نہیں کرتے بلکہ جرم کرنے کے باوجود اپنے آپ کو بے قصور ثابت کروالیتے ہیں اور قانون کا مذاق اُڑاتے ہیں،کاش ایسے حکمران ہمارے ملک میں آجائیں جو سلطان نورالدین زنگی کی طرح جو عدل و انصاف کو مقدم سمجھیں،